Alfia alima

Add To collaction

محبت کی دیوانگی

محبت کی دیوانگی قسط نمبر 18

تصبیہا نے اسے کھانا نکال کردیا اور وہ کھانے لگا ساتھ ساتھ وہ اسے بھی کھالا رہا تھا۔۔

موصب تم کھاو مجھے بھوک نہیں ہے یار۔۔۔(تصبیہا نے اس کا ہاتھ روکتے ہوئے کہا تو اس نے تصبیہا کا ہاتھ ہٹایا اور اس کہ منہ میں نولا ڈالا اور بولا)

کتنی کمزور ہوگئی ہو دو دن میں مجھے اتنا مس کیا تم نے ۔(اس نے شریر لہجے میں بولا)

مس کیا ؟ میں نے ؟ تمہیں ؟ سوچ ہے تمہاری ۔۔۔ (اس ایک ایک لفظ پر زور دے کر بولا)

اچھااااااااااااااااااااااا(اس نے اچھا کو لمبا کرتے ہوئے بولا)

جیییییییییییییییی(تصبیہا نے بھی اسی کی طرح بولا)

کھانے کہ بعد تصبیہا نے چائے بنائی اور ایک کپ اس نے موصب کو دیا اور ایک خود نے لیا۔ موصب نے تصبیہا کا ہاتھ پکڑا اور اسے لے کر کمرے میں چلاگیا۔)

دو دن تم نے کیا کیا؟(تصبیہا نے چائے پیتے ہوئے کہا)

تمہیں یاد کیا۔۔۔( موصب نے لہجے میں ایک سحر تھا)

باتیں بن والو تم سے ۔(تصبیہا نے مسکراتے ہوئے کہا)

یہ باتیں نہیں ہیں ۔۔۔(موصب نے اسے دیکھتے ہوئے کہا)

تو پھر ؟(وہ اسے تنگ کررہی تھی )

تم بھی جانتی ہو کہ تم میرے کیے کیا ۔۔(موصب کا لہجا نرم تھا اور محبت بھرا)

تصبیہا نے مسکرا کر سامنے دیکھنے لگی اور چائے کا کپ لبوں سے لگا لیا)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اج صبح سے ہی وہ بزی تھی ۔ آج شاہ کا نکاح تھا اور اسے پتا بھی نہیں تھا وہ آرام سے سورہا تھا ۔ نکاح شام میں تھا اور سارا انتیظام نور کے گھر تھا ۔)

شاہ اٹھو ۔۔۔(تصبیہا اس کہ کمرے میں آئی جو آرام سے سورہا تھا اور شام ہونے کو تھی ۔)

مممم آپی تھوڑی دیر۔۔۔(شاہ نے نیند میں بولا )

شرم کرو شام ہورہی ہے اور تم سو رہے ہو۔(تصبیہا نے تکیا اٹھا کہ اسے مارا)

کیا ؟؟؟(شاہ ایک دم اٹھ کہ بیٹھ گیا ) میں اتنی دیر تک کیسے سو گیا اور کسی اٹھایا بھی نہیں
چلو تو اب اٹھ جاو اور ہاں تیار بھی ہوجانا ہمیں 8بجے تک نکلنا ہے ۔(تصبیہا نے اسے تیار ہونے کا کہا)

کہا جانا ہے؟(شاہ نے ناسمجھی سے پوچھا)

بابا کہ دوست کی بیٹی کا نکاح ہے تو ہمیں وہاں جانا ہے ۔(تصبیہا نے ادھا سچ اور ادھا جھوٹ بولا)

بابا کہ دوست کہ گھر میرا کیا کام ۔؟(اس نے بے زاری سے کہا)

بابا نے کہا ہے سب نے چلنا ہے موصب بھی جارہے ہیں ۔۔

کیا بھائی بھی جارہے ہیں ۔ایسا کیسے ہوسکتا ہے ۔وہ تو کبھی نہیں جاتے ایسی تقریبات میں ۔(شاہ حیران تھا کہ موصب جارہا ہے۔)

لیکن ابھی وہ جارہے ہیں ۔تو آپ بھی چل رہے ہیں ۔اب جلدی اٹھو۔۔۔(اس نے دھونس جماتے ہوئے کہاتو اس بےجارے کو ماننا پڑا )

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیا ہوا ہے ؟ (تصبیہا ہنستی ہوئی کمرے میں آئی تو موصب نے پوچھا )

شاہ کو اٹھانے گئی تھی ۔کتنے جھوٹ بولے ہیں میں ہی جانتی ہوں ۔مگر جب اسے اصلی بات پتا چلے گی وہ سوچ کر ہنس رہی ہوں ۔(تصبیہا نے اس کہ قریب بیھٹے ہوئے کہا تو موصب نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا ۔۔)

اوو نو۔۔۔(تصبیہا کچھ یاد آنے پر فورن اٹھی ۔۔)

اب کیا ہوا؟(موصب نے پوچھا)

ماما نے ایک کام کہا تھا میں بھول گئی ،(اس نے بتایا اور کمرے سے چلی گئی)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب گاڑی نور کہ گھر کہ آگے رکی تو شاہ کی سانس رکھ گئی ۔۔۔وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس کہ ڈیڈ کہ دوست کی بیٹی نور ہوگی ،کیونکہ وہ اکلوتی تھی ۔اور اس کہ گھر آنے کا مطلب یہ ہی تھا۔وہ بے یقینی سے اس کہ گیٹ کو دیک رہا تھا وہ گاڑی سے نہیں اترا تھا ۔سب اتر گئے تھے ۔موصب نے اس کی سایڈ کا دروازہ کھولا اور اس کہ کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا)

کیا ہوا۔چلو۔۔۔(موصب کہ کہنے پر وہ اتر تو آیا مگر جیسے جیسے وہ اندر جارہا تھا اسے لگا کہ ابھی اس کا دم نکل جائے گا ۔۔جیسے ہی وہ اندر گئے تو نور کہ ڈیڈ اور موم نے ان کا استقبال کیا ۔کیونکہ پروگرام گھر میں ہی تھا تو گھر والے ہی تھے ۔۔نور کہ ڈیڈ نے شاہ کو دیکھ کر کہا )

ارے شاہ رخ بیٹے آپ کیسے ہو ؟ (شاہ مروتن مسکرایا اور ان کہ گلے لگا)

تھوڑی دیر میں ہی مولوی صاحب بھی آگئے ۔تو نور کہ ڈیڈ کہ ساتھ نور سے ساین کروانے چلے گئے ۔۔۔شاہ کا وہاں روکنا مشکل ہوگیا ،اسے کچھ سمجھ ہی نہیں آرہا تھا اس نے اس بات پر بھی غور نہیں کیا کہ دولہا کون ہے اور کہاں ہے۔اسے خیال تھا تو یہ کہ اس نے اسے کچھ بھی نہیں بتایا ۔اور آج وہ کسی اور کی ہوجائے گی۔ وہ وہاں سے جانے لگا تو موصب نے اس کا ہاتھ پکڑ کر پوچھا)

کہاں جارہے ہوں؟ (موصب سمجھ سکتا تھا کہ اس کی کیا حالت تھی)

بھائی کچھ کام ہے آتا ہوں ابھی ۔(اس نے موصب سے چھوٹ بولا)

نکاح ہوجائے پھر چلے جانا ۔۔(موصب نے اس کہا)

مگر بھائی ۔۔(وہ کہنا چاہتا تھا کہ اگر یہاں روکا تو مرجاوں گا )

میری کہنے پر بھی روکو گے؟(موصب نے اسے اموشنل بلیک میل کیا۔۔۔شاہ کبھی بھی موصب کی بات نہیں ٹال سکتا تھا اس لیے چپ چاپ روک گیا۔۔۔کچھ دیر بعد مولوی صاحب باہر آئے سب کہ چہروں پر خوشی تھی سوائے شاہ کہ ۔۔مولوٰی اور باقی سب بھی صوفوں پر بیٹھ گئے مگر شاہ تھا جو کھڑا کہیں اور ہی تھا ۔موصب نے اسے بیٹھنے کو کہا تو وہ بیٹھ گیا۔مولوی صاحب نے نکاح پڑھانا شروع کیا اورجب کہا )

شاہ نے جب اپنا نام نور کہ نام کہ ساتھ سنا تو وہ بے یقینی سے کبھی مولوی صاحب کو دیکھتا تو کبھی اپنے بابا کو ،جب موصب کی طرف دیکھا تو اس نے اسے آنکھ ماری اور مسکرایا ۔۔۔تو شاہ کو لگا اسے زندگی مل گئی ۔۔وہ موصب کہ گلے لگ گیا۔۔۔

کیا آپ کو قبول ہے؟ (مولوی صاحب نے دوبارا پوچھا جو انجان بنے شاہ کو دیکھ رہے تھے جو نکاح ہوئے بغیر ہی گلے ملنا شروع ہوگیا انھیں کیا پتا اس بیچارے کہ ساتھ کیا ہوا ہے ۔۔۔ان کہ پوطھنے پر اس نے بولا)

قبول ہے ،قبول ہے ،قبول ہے ۔۔۔(وہ خوشی میں ایک ساتھ بول گیا ،اس کی اس حرکت پر سب مسکرانے لگے ۔پھر دعا ہوئی ۔تھوڑی ہی دیر میں نور کو لایا گیا۔وہ لایٹ پنک کلر کا لمبا فراک پہنے ہوئے تھی جو فل بھر ہوا تھا ۔ہلکا سا میکپ اور ہلکی جیولری پہنے وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی ۔ شاہ نے اسے دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا ۔اسے لاکر شاہ کہ برابر میں بیٹھایا تو شاہ نے کسی کی پروا کیے بغیر نور کو دیکھ رہا تھا پھر بولا)

تم نے مجھے بتایا کیوں نہیںَ؟ (شاہ نے اسے دیکھتے ہوئے ہی پوچھا)

اگر بتادیتی تو تمہاری یہ شکل اسی دیکھنے کو ملتی۔۔(نور نے ہلکی آواز میں بولا مگر اس نے سن لیا تھا)

میری جان نکلنے والی تھی ۔۔(شاہ ابھی بھی اسے ہی دیکھ رہا تھا )

اللہ نا کرے (نور نے تڑپ کہ کہا تو شاہ مسکرانے لگا اور سامنے دیکھنے لگا جب نظر تصبیہا پر پڑی تو اٹھ کر اس کہ پاس گیا )

مبارک ہو ۔۔۔(تصبیہا نے مسکراتے ہوئے کہا تو شاہ اس کہ گلے لگ گیا اور بولا)

تھنک یو آپی تھنک یو ویری مچ (موصب نے جب یہ منظر دیکھا تو فورن وہاں پہنچا اور شاہ کو کھنچا اور تصبیہا کو اپنی طرف کیا)

کیا ہوا؟(تصبیہا نے موصب سے پوچھا تو وہ شاہ سے بولا)

اپنی بیوی کہ گلے لگ ۔۔۔۔(وہ سنجیدہ تھا )

وہ بہن ہیں میری میں تو لگوں گا۔۔(شاہ کو پتا تھا وہ تصبیہا کہ لیے بہت پزیسو ہے )

پٹے گا بھی مجھ سے ۔۔۔(موصب نے کہا )

تم نور کہ پاس جاو شاہ (تصبیہا نے شاہ وہاں سے بھیجا تو وہ چلا گیا ۔تصبیہا نے موصب کو گھورا ااور وہ بھی چلی گئی)

سب کچھ بہت اچھے سے ہوگیا تھا جب موصب کہ ڈیڈ نے چلنے کو کہا تو شاہ موصب سے بولا)

بھائی رخصتی بھی ابھی کروالیں پلیز ۔۔۔(شاہ نے ایک معصومانا خواہش کی جس پر موصب نے اسے گھورا تو وہ بیچارا چپ ہوگیا)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہاں سے اوپس آنے کہ بعد بھی وہ سب باتوں میں لگے رہے جس میں شاہ ،اس کی امی اور تصبیہا تھے ۔۔۔موصب کب سے اس کا انتیظار کررہا تھا کمرے میں مگر وہ تھی کہ آہی نہیں رہی تھی ۔۔۔۔ کافی دیر بود جب وہ کمرے میں آئی تو موصب آنکھوں پہ ہاتھ رکھے سیدھا لیٹا تھا ۔)

سو گئے ۔۔(تصبیہا نے پوچھا جب کوئی جواب نہیں آیا تو وہ سمجھی کہ وہ سو گیا ہے ۔۔مگر وہ جاگ رہا تھا۔۔تصبیہا لایٹ بند کرکہ لیٹ گئی تو وہ بولا)

اب بھی نہیں آتیں ۔۔۔(اس کہ لہجے میں خفگی صاف تھی)

تم جاگ رہے ہو؟(تصبیہا نے حیرانی سے پوچھا ۔وہ سمجھی تھی کہ وہ سو گیا ہے )

تمہیں فرق پڑتا ہے اس سے ؟( اس نے آنکھوں سے ہاتھ ہٹاتے ہوئے کہا مگر وہ ابھی تصبیہا کو نہیں دیکھ رہا تھا وہ جھت کو دیکھ رہا تھا)

کیا ہوا ہے ؟ تم ایسے کیوں بول رہے ہو؟ (تصبیہا کو سجمھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیوں ایسی باتیں کررہا ہے )

اس نے کوئی جواب نہیں دیا وہ چپ رہا ،تو تصبیہا نے اس کا چہرا اپنی طرف کیا ۔موصب کا چہرا اس نے اپنے دونوں ہاتھوں میں تھا ۔)

ادھر دیکھ کر بولو کیا بول رہے ہو۔۔۔(تصبیہا نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا)

موصب اب بھی چپ تھا مگر غصہ اب اڑ گیا تھا وہ بس اسے دیکھ رہا تھا ۔ایسا کیسے ہوسکتا تھا کہ وہ اتنے پیار سے اس سے کچھ کہے اور اس کا غصہ قائم رہے ۔ایسا تو ہوہی نہیں سکتا تھا)

میں تمہارا اتیظار کررہا تھا ۔۔(موصب نے اس کی کمر پر ہاتھ ڈالا اور اسے اپنے قریب کیا)

اب تو میں آگئی نا ۔۔(تصبیہا نے مسکراتے ہوئے کہا تو موصب بھی مسکرا دیا )

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سر کام ہونے ہی والا تھا بس وہ موصب وہاں آگیا ۔۔(اس آدمی نے جہانگیر کو بتایا تو اس نے زور دار تھپڑ اس کہ منہ پر مارا )

سب کہ سب نکمے ہو ۔۔۔۔۔دفعہ ہوجاو میری نظروں سے ۔۔(جہانگیر غصے سے چیخا)

وہ غصے سے پاگل ہورہا تھا۔۔۔۔۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کیا کردے ۔وہ غسے سے اس کی طرف پلٹا اور بولا)

صرف آخری چانس ہے تمہارے پاس ۔اگر اپنی زندگی پیاری ہے تو میرا کام ہوجانا چاہیے ۔۔۔(جہانگیر نے اسے گریبان سے پکڑکر کہا)۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

   1
0 Comments